ز یبا ٸش گل ہو جا ۓ کیا یوں بھی ہوا ہے کبھی؟؟؟
Poet: Naila Rani By: Naila Rani, Lahoreز یبا ٸش گل ہو جا ۓ کیا یوں بھی ہوا ہے کبھی؟؟؟
یار کے خیال میں کیا یوں کو ٸ دیوانہ بھی ہوا ہے کبھی
اے عبدل تیری خوا ہش ہو گی مال و زر کی ہوس
کیا مال و زر سے بھی کو ٸ عہدہ برآں ہوا ہے کبھی
ہم بھی دکھا دیں گے اک بار اور چیر کر دل
اپنا کچھ دور اور چل کیا کو ٸ زخم ہرا بھی کھو لتا ہے کبھی
یوں لگتا ہے کہ تیری روح کی پیاس کی طرح ہوں
اور روح میں میری تو بسا ہے کیا یوں بھی ہو تا ہے کبھی
لوگ کہتے ہیں کہ لکھوں محبت کے حق میں کو ٸ نغمہ با اثر
کیا فسا نہ محبت بھی دو لفظوں میں بیاں ہوا ہے کبھی
بتا ٶ کیا سوچ رہے ہو ؟؟؟ میری زندگی ہو تم یار
کیا اپنی زندگی کا بھی کو ٸ دشمن ہوا ہے کبھی؟؟؟
یوں چلتا ہے قلم روا نی سے تیری بات پر اے میرے عبدل
جیسے کہ فلک پر نالہ عشق و محبت لکھ چکا بھی ہو کو ٸ
اب اور کیسی خوا ہش کیا غم اور خو شی کے لمحے
بس ذرا وقت دیجیے کہ دور ہو نے سے بھی کو ٸ جدا ہوا ہے کبھی
زیبا ٸش گل ہو جا ۓ کیا یوں بھی ہوا ہے کبھی
یار کے خیال میں کیا کو ٸ دیوانہ بھی ہوا ہے کبھی
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






