ستم ہے کرنا، جفا ہے کرنا، نگاہِ اُلفت نبھا رہے ہیں
Poet: وشمہ خان وشمہ By: وشمہ خان وشمہ, ملایشیاستم ہے کرنا، جفا ہے کرنا، نگاہِ اُلفت نبھا رہے ہیں
تمہیں قسم ہے ہمارے سر کی، ہمارے حق یہ ادا رہے ہیں
کہاں کا آنا کہاں کا جانا، وہ جانتے ہیں تھیں یہ رسمیں
بھلا کیا اعتبار تونے، ہزار منہ کی سنا رہے ہیں
مری تو ہے بات زہر اُن کو، وہ اُن کی مطلب ہی کی نہ کیوں ہو
کہ اُن سے جو التجا سے کہنا ، غضب ہے اُن کو خفا رہے ہیں
رقیب کا ذکر وصل کی شب، پھر اُس پہ تاکید ہے کہ سنئے
مجال کس کی ہے اے ستمگر سنائے جو تجھ کو جا رہے ہیں
نگاہیں دشنام دے رہی ہیں، ادائیں پیغام دے رہی ہیں
بہک بہک کر مزے مزے کی سنائیں گے یہ سنا رہے ہیں
بہل ہی جائے گا دل ہمارا کہ ہجر کی شب کو رحم کھا کر
تمہاری تصویر بول اُٹھے گی کرے کیا یہ لبھا رہے ہیں
مزا تو اُس وقت جھوٹ سچ کا کُھلے کہ ہے کون راستے پر
خدا کے آگے مری تمہاری اگر ہوں لب کی دعا رہے ہیں
گلا نہیں تجھ سے زندگی کے وہ زاویے ہی بدل چکے ہیں
مری وفا وہ ترے تغافل کی نوحہ خواں ہی پڑھا رہے ہیں
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






