سخت مشکل ہے کہ یہ شام الم سے آگے
آزمانے کے لئے اس کے کرم سے آگے
کیسے تخلیق ہوئی، بعد اجل کیا ہو گا
ان سوالوں ہی سے سب دین و دھرم سے آگے
غلبہ تھا ذہن پہ رنگین سے کچھ خوابوں کا
عشق میں ڈوبے تو اب سارے بھرم سے آگے
کھائے ہیں اہل زباںخوف ستم گر کتنا
لب بھی خاموش ہیں، کاغذ نہ قلم سے آگے
ضد ہے اس یار کو ہرگز نہ اٹھائے گا نقاب
کھا کے دیدار کی پر ہم بھی قسم سے آگے
فخر سے قوت باطل کو کیا ہے مفلوج
جب ذرا سر پہ کفن باندھ کے ہم سے آگے
پلٹے اوراق ذرا آج جو کچھ ماضی کے
ہر ستم انکا ہے وشمہ ‘ دل پہ رقم سے آگے