سر راہگزر کوئی منتظر میرے راستے میں کھڑا ہوا
کبھی مضطرب کبھی مطمعن کبھی وسوسوں گھرا ہوا
وہ جو اپنے چہرے پہ مسکراہٹ سجائے رہتا تھا ہر گھڑی
یہ کیا ہوا کہ اسی کا چہرہ ہے آنسوئوں سے بھرا ہوا
ہجر کی راہوں پہ چلتے چلتے قدم ہمارے نہ ڈگمگائے
وہ جو دوستوں میں رہا ہمیشہ کیوں لگ رہا ہے تھکا ہوا
ہر اجنبی ہر آشنا سے وہ میرے باعے میں پوچھتا ہے
جفا نے جس کی ہے لمحہ لمحہ میرے دل کو دسا ہوا
وہ جو بزم اپنی میں نام تک بھی نہ سن سکے تھا ہمارا ہرگز
وہ میرے بارے میں پوچھتا ہے میں سوچتا ہوں یہ کیا ہوا
وہ جو نہ قائل تھا پہلے دن سے محبتوں کی صداقتوں کا
اسی کی ڈائری کے ہر ورق پہ ہے نام میرا لکھا ہوا
حسن اسکا بھی ڈھل گیا ہے نہ میرے جذبے جواں رہے
میری آنکھوں میں پھر بھی قیصر ہے اسکا چہرہ بسا ہوا