وہ میرا ناں تھا جو سر شام آ کے لوٹ گیا
وہ میرے نام کا چراغ بجھا کے لوٹ گیا
یہ اسکی بات نہیں ہے چلن زمانے کا
دکھائے خواب اور پھر جگا کے لوٹ گیا
رہے گا راز ہمیشہ وہ کیوں ہوا ہے خفا
سنائی ہم کو سزا اور دل جلا کے لوٹ گیا
تھا منتظر جاذب اپنے مزار پہ اسکی آمد کا
ناں مانگی اس نے دعا قبر پہ آ کے لوٹ گیا