ملول کرتی ہے کچھ ایسے یادِ یار مجھے
خوشی کے لمحوں میں رکھتی ہے سوگوار مجھے
نہ چھین مجھ سے تو اپنے خیال کی خوشبو
مرے ہنر کی بلندی سے مت اتار مجھے
یہ رنگ اب بھی جو کھلتے گلوں کا پھیکا ہے
چمن سے روٹھی ہوئی لگتی ہے بہار مجھے
میں تیرے عشق میں کر دوں گا اپنی ذات فنا
کبھی تو اپنے فقیروں میں کر شمار مجھے
مچلتے اشکوں کا دھارا ہے میری آنکھوں میں
سمجھ نہ قطرہ سمندر تو کر شمار مجھے
مجھے خبر ہے نہ آئے گا لوٹ کر وہ عمیر
مگر ہے اپنی وفاؤں پہ اعتبار مجھے