وہی اندھیر وہی شمع وہی سایہ ہے
اب کے یادوں کے جزیرے میں کون آیا ہے
دل اسے یاد نہ کرتا تو اور کیا کرتا
جو روح بن کے میرے جسم میں سمایا ہے
نگاہ بے چین۔ شوق سفر۔ ذہن بنجارا
تیری تلاش میں نکلے تو یہی پایا ہے
نہ کوئی درد کا درمان۔ نہ کوئی ہمدم
غم حیات یہ مجھکو کہاں پہ لایا ہے
سنا ہے چاند۔ ستارے زمیں پہ آئے ہیں
سنا ہے آج وہ پھر سے چمن میں آیا ہے
اسی کے ناز سے غنچے فروغ پاتے ہیں
بہار بن کے وہ سب موسموں پہ چھایا ہے
وہ میری لحد پہ آیا تو پھول کہنے لگا
ابھی تو لوریاں دے کر اسے سلایا ہے