سنبھلنے دے اے آسماں مجھے وہ راستہ بنا گئے
کہاں پہ لے کے آگئی خودی وہ آئینہ دکھا گئے
وہی اداس روز و شب، وہی فسوں، وہی ہوا
امید وصل اشک بن کے ہر گھڑی دیا جلا گئے
وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا
تلاش میں سحر کے ہوں یہ مسئلہ اٹھا گئے
جدائیوں کے زخم دردِ زندگی نے بھر دیئے
کہ رسمی رابطہ رہا ہےسلسلہ جڑا گئے
ترے وصال کا زمانہ یاد آ یا بارہا
مخل ہوئے نہ آکے تمیہ تجربہ کیا ہوا گئے
گئے دنوں کی لاش پر پڑے رہو گے کب تلک
میں خوش تمہاری جیت میں، میں قہقہہ لگا گئے
یہ کس خوشی کے موقعے پر غموں کی نیند آ گئی
خوشی کا چاند شام ہی سے جھلملا آ گئے
بڑے نصیب والے ہو کہ وہ تمہاری ہو گئی
کبھی نہ اپنے آپ کی ہو وشمہ دائرہ بنا گئے