درد کی پتھریلی زمیں میں
خواہشوں کے پھول اگانے والے
لاکھ سینچے تو اپنے لہو سے ان کو
کوئی غنچہ نہیں کھلنے والا
پتھروں میں تو مٹی کی خو نہیں ہوتی
پھول سنگم ہے رنگ خوشبو اور نزاکت کا
رنگ تو دو گے اپنی خواہش کے
خوشبو اور نازکی کہاں سے لاؤ گے
پتھروں سے بنائے غنچوں میں
رنگ ہوتے ہیں بو نہیں ہوتی
میں بھی یہ خواب دیکھا کرتا تھا
جو تیری آنکھ میں نظر آئے
میں تو ان کوششوں سے ہار گیا
چھوڑ دے تو بھی لاحاصل سعی
زندگی اب صلہ نہیں دیتی
خواب ایسے تھے میری آنکھوں میں
پھول میں بھی بنایا کرتا تھا
رنگ ان کے بھی خوبصورت تھے
پر نزاکت کہاں سے لاتا میں
خوشبو ان میں مجھے کبھی نہ ملی
تھک گیا میں تو یہ سمجھ پایا
لوچ رنگ و نزاکت و خوشبو
یہ تو شامل ہیں میری مٹی میں
پتھروں سے میں سر کو پھوڑا کیا
یہ تو اپنی ہی بھول تھی میری
میری کوشش کو اک مثال سمجھ
پتھروں سے تو کھیل سکتا ہے
ان میں جذبات بھر نہیں سکتا
اپنی مٹی سے دل لگا جاناں
مجھ کو بھی اس میں ہی پناہ ملی