وہ نہ ملتا تو اچھا ہوتا
یا پھر بچھڑ کر نہ ملا ہوتا
سوچوں کے تانے بانے نہ بنتے
جذبوں میں نہ رنگ بھرا ہوتا
تھا پتھر ‘ مگر لگا کچھ اور
ورنہ شیشہ کیوں یوں گرا ہوتا
کیا عجب دھندوں سے آشنا
بھلا نہ کرتا تو بھلا ہوتا
آزاد ہو کر بہک گئے ہیں
قید میں ہوتے تو کیا ہوتا
سورج کی تپش بڑھ جاتی ناصر
جو اسکے سائے سے گذرا ہوتا