خوابوں میں دلگداز سی وحشت تو نہیں ہے
سوچو کہ کہیں مجھ سے محبت تو نہیں ہے
سمجھو تو ایک بحر معانی ہے اس میں بند
کہنے کو کوئی خاص شکایت تو نہیں ہے
دن رات آئینے میں ملو اپنے آپ سے
اوپر سے یہ دعوی ہے کہ الفت تو نہیں ہے
میں چاند ستاروں کیلئے چھوڑ دوں دنیا
اب اتنی بھی ارزاں مری قیمت تو نہیں ہے
ہاں میں نے انکو اپنے جنوں کا کیا گواہ
دیوار و در سے پوچھئے خفت تو نہیں ہے
یہ اور بات وقت کبھی کھینچ کے لائے
ملنے کی ذہن میں کوئی صورت تو نہیں ہے
تم ضد پہ آ گئے تو چلو تھام لی میں نے
اس زندگی کی ورنہ ضرورت تو نہیں ہے
کل مشتری کی خاک اڑائی تھی سانس سے
اب سوچ کے بتلا تجھے حیرت تو نہیں ہے
اب بھی ہے وہی دیس نکالا مرے پیچھے
یہ روئے ممکنات ہے جنت تو نہیں ہے