سوچُوں کہ مری قبر پہ پھول آ کے دھرے کون
میں دوست رہا کس کا مجھے یاد کرے کون
میں کس کلۓ جان چھڑکتا تھا جہاں میں
تھا پاس مرے کون رہا مجھ سے پرے کون
حیران ہوں دستک بھی مری بھول گۓ آج
دروازے پہ آۓ تو وہ بولے کہ ارے کون
دن بھر کی مسافت کی تھکن جسم کو کھاۓ
اب رات گۓ شہر کی گلیوں میں پھرے کون
ہر شخص جو اپنی جگہ ہے معتبر آخر
ہر شخص کی تعظیم کو قدموں پہ گِرے کون
ہم سے تو یہ کم بخت محبت نہیں ہوتی
پل بھر کی خوشی کیلۓ ہر لمحہ مرے کون
دشمن بھی جو باقرؔ صفِ یاراں میں کھڑے ہیں
بتلاؤ بھلا ان سے کرے کھوٹے کھرے کون