جفا کا ذکر کریں تو سزا نہیں دیں گے
ہیں دل شکستہ سبھی ہم رجا نہیں دیں گے
سکوت مرگ ہے ظاری تمام پھولوں پر
بلا کے حبس میں مہکی ہوا نہیں دیں گے
جنوں میں چاک گریباں تو مست و بے خود ہیں
جو حق پہ چاک ہوئی اس قبا نہیں دیں گے
سکون دل کے لیے بے اثر تھی ہر کاوش
امیر شہر یہ تیری کہیں خطا نہیں دیں گے
مرے خیالوں میں پھر جلترنگ بجتی ہے
وہ آدھی رات کو جب بھی صدا نہیں دیں گے
جہاں برسنا ہے اس نے وہیں پہ برسے گی
لبوں کی پیاس بجھانے گھٹا نہیں دیں گے
ہر ایک ملک میں جنگ و جدل کی باتیں ہیں
فنا کے دور میں وشمہ بقا نہیں دیں گے