یوں تو خیال کدھر کدھر نہیں جاتا
مگر اس سے بچھڑنے کا ڈر نہیں جاتا
کیا کوئی حادثہ پڑا ہے دہلیز پر
اے دل تُو کیوں گھر نہیں جاتا
اس کو اپنی اوقات کا اندازہ ہے
پاس سورج کے اس لئے ابر نہیں جاتا
گوہر کہاں ملتے ہیں ساحل کی ریت پر
کچھ پانا ہے تو کیوں تہہ آب اتر نہیں جاتا
لوگوں کی باتوں کا افسوس مت کرو
کسی کے کہنے سے کوئی مر نہیں جاتا
دل اناء پرست کو فقیر کہنے والوں
یہ مانگتا ضرور ہے مگر در در نہیں جاتا
چلو عثمان آج سکوں کی تلاش میں
وہاں چلیں جہاں کوئی بشر نہیں جاتا