سینے میں میٹھی میٹھی بغاوت ہوئی تو ہے
اہل و سہلا مرحبا الفت ہوئی تو ہے
اب دیکھئے کہ حشر کیا اٹھتا ہے جنوں کا
اس شوخ کی گلوں پہ عنایت ہوئی تو ہے
بادل پہ اپنے راز کرے گا نہ آشکار
ہاتھوں سے میرے چاند کی درگت ہوئی تو ہے
گو جز ہجر ملا نہ کبھی کچھ بھی عشق کو
ہاں یہ ہوا کہ چار سو شہرت ہوئی تو ہے
اے موسم خمار نہ نظریں چرا کے مل
کچھ طے تیرے مزاج کی قیمت ہوئی تو ہے
صد شکر رود فلک پہ چمکی ہیں بجلیاں
پیدا کوئی وصال کی صورت ہوئی تو ہے
کھل جائے گا اک روز یہ دل کا معاملہ
لفظوں میں اجنبی سی شرارت ہوئی تو ہے