گلشن کا جاتے جاتے دامن بھگو گئے ہم
کانٹوں بھری فضا میں شبنم پرو گئے ہم
خوابوں کی کرچیاں وہ ابتک نہ سمٹ پائیں
اس شہر مرمریں میں کچھ ایسے کھو گئے ہم
شاید انہی سے پھوٹے پھر موسم بہاراں
ویرانی خزاں میں کچھ خواب بو گئے ہم
ممکن ہے تیرے دل کی تسبیح قرار پائے
لمحوں کی جس لڑی میں دھڑکن پرو گئے ہم
جیسے ہو ننھا بچہ آغوش مادری میں
یوں اوڑھ کر خاموشی چپ چاپ سو گئے ہم
اب تم پہ منحصر ہے چاہو تو بکھر جاؤ
تیری تمام راہیں اشکوں سے دھو گئے ہم
شعلوں کا اک سمندر تھا درمیاں ہمارے
نہیں تو ملا تو کیا ہے اس پار تو گئے ہم
ہم تو تلاش میں تھے گم گشتہ جنتوں کی
تیرا ہی شہر آیا جس سمت کو گئے ہم
قابو ہی نہیں آیا اظہار کا وہ لمحہ
لفظوں کو چنتے چنتے شاعر سے ہو گئے ہم
ہونے سے ہمارے ہی ویرانیاں تھیں شاید
اب کھل کے مسکراؤ سر بزم لو گئے ہم