زندگی میں میری کوئی شام کر گیا
غم دنیا کے سارے میرے نام کر گیا
مرنا چاہتا تھا پی کے زہر میں دوستو
جاتے جاتے عرق ساغر کو جام کر گیا
آیا تھا اک پل در پہ میرے وہ
ساری زندگی کا مجھے اپنا غلام کر گیا
کیا تھا الفت کا ہم نے آغاز
جاتے جاتے قصہ تو تما م کر گیا
رکھا ہوا تھا ہم نے اک راز شاکر
کمسن اس کو بھی سر عام کر گیا