شب اُلفت میں ڈوب رھا ھے سفینہ اپنا
وقت کے بھنور نے بنا دیا ھے پرایا اتنا
یادوں کے سائےبھی ڈھل چکے ہیں وحشت سے
اُجڑی شاموں نے بسا لیا ھے ڈیرہ اپنا
اپنی آغوش میں چھپا لو دشت تنہائی سے
رہ جائے گا ورنہ مٹی کا ڈھیر اور فسانہ اپنا
سکوں کا متلاشی تھا دل وائے ناداں
پر مٹ گئ ہستی اور بن گیا ریگ زار چمن اپنا
چند لمحے نہ سہی دو گھڑی ہی کر دو میرے نام
دیکھ کوئ بن رہا ھے زندگی کا خود قاتل اپنا
قیس نے بھی ہاری تھی پیار میں زندگی کی بازی
کاش!!! میری محبت میں بھول جائے تُو بھی نام اپنا
تم بھی کھو گئے احساس خودی میں “فائز“
تمہیں تھی ہی نہیں محبت، تم بھی نہ بن سکے میرا اپنا