شب کے سینے میں کچھ سلگتا ہے
زندگی کا چراغ جلتا ہے
میری آنکھوں میں قید ہیں دریا
پھر سمندر کہاں نکلتا ہے
بڑھتی جاتی ہے آج تشنہ لبی
اور سانسوں میں خوں سلگتا ہے
اُس سے ملنے کی اب بھی حسرت ہے
وعدہ کر کے بھی جو مکرتا ہے
ہم کو دنیا ، وفا سے کیا لینا
رنگ باتوں سے وہ بدلتا ہے
جب سے جنگل میں آ گئی وشمہ
شہر سارا ہی اب تڑپتا ہے