شدت درد کی کچھ تاب لا نہیں سکتا
مجھ کو اس حال میں اب چین آ نہیں سکتا
زندگی ایک نئے موڑ پہ آ ٹھہری ہے
لوٹ کر پھر انہی راہوں پہ جا نہیں سکتا
اب امنگوں کے گلابوں کا نہیں ہے موسم
اب محبت بھرے نغمات گا نہیں سکتا
آج مایوسی مری حد سے بڑھی جاتی ہے
آج اپنے لیے کچھ بھی تو پا نہیں سکتا
موت ہے سامنے اور سانس رکی جاتی ہے
زندگی جا تجھے واپس میں لا نہیں سکتا
درد سہہ سہہ کے خود اک درد بنا جاتا ہے
اب مسیحا سے بھی دل بس میں آ نہیں سکتا
شدت درد کی کچھ تاب لا نہیں سکتا
مجھ کو اس حال میں اب چین آ نہیں سکتا
نوٹ:- چند سال ہوئے دل کے آپریشن سے کچھ دیر پہلے
اسپتال میں یہ غزل کہی تھی جسے اب ساتھیوں کی
نذر کرتا ہوں۔۔۔