شدت سے ہو رہا ہے دل بے قرار، آ جا
ممکن نہیں ہے مجھ سے اب انتظار، آ جا
اِس بار بھی ہواؤں میں تازگی نہیں ہے
گزری تھی تیرے بن ہی پچھلی بہار، آ جا
جذبات کی ترے گھر بارات بھیجتا ہوں
اشکوں کی پالکی میں ہو کر سوار، آ جا
دنیا کے شور و غل سے چھٹکارا چاہتا ہے
سن خامشی میں اپنے دل کی پکار، آ جا
پھولوں میں نازکی تھی تیری نزاکتوں سے
بستر پہ چبھ رہے ہیں گل بن کے خار، آ جا
یاد آ رہی ہے تیرے ہاتھوں کی ہر شرارت
چہرے کو چھو رہی ہے پھر سے پھوار، آ جا
لو شام ہو گئی پھر میں راہ میں کھڑا ہوں
آ جاؤ، کہہ رہا ہے من بار بار آ جا