آنکھوں میں اک جزیرہ بسانا پڑا مجھے
اک سیل ضبط خود ہی بنانا پڑا مجھے
پاتا میں نور ِ وصل کی کیسے تجلیاں
شرم وحیا کا طور جلانا پڑا مجھے
اس مرکزِ نگاہ سے ملنے کے واسطے
رسماً سبھی سے مِلنا ، مِلانا پڑا مجھے
کون و مکاں کی سیر کو للچا گیا جو دل
براق یارو فکر کا لانا پڑا مجھے
اسکی اجل نگاہ کا رکھنا تو تھا بھرم
اس واسطے بھی جان سے جانا پڑا مجھے
تھا خواب کو جو رنگ ِ حقیقت میں دیکھنا
تعبیر سے بھی ہاتھ مِلانا پڑا مجھے
اس جان ِ جاں سے دوستی جاں سے عزیز تھی
دشمن جہان سارا بنانا پڑا مجھے
آرام گاہ پر مری آیا وہ اس طرح
باہَر نکل کے قبر سے آنا پڑا مجھے
میدان ِدل میں دیکھ کے یلغارِ آرزو
ہتھیار خود پہ خود ہی اُٹھانا پڑا مجھے
انداز اسکی ہاں کا ، اگرچہ تھا منفرد
مہنگا مگر اے مفتی وہ “نا ” “نا” پڑا مجھے