حسیں اک شام کے لمحے سجائے تھے کبھی اُس نے
عجب سے حشر کے منظر بنائے تھے کبھی اُس نے
وہ اُس کا نرم سا لہجہ وہ کچھ دیدار کی شبنم
نظر کی آگ سے تن من جلائے تھے کبھی اُس نے
ابھی بھی یاد ہے اُس نظر کا میکدہ مجھ کو
غضب کی پیاس تھی ساغر پلائے تھے کبھی اُس نے
گلابی رنگ تھا پلکوں کی جھالر سے جھلکتا سا
نہ جانے اشک کیوں مجھ سےچھپائےتھے کبھی اُس نے
یقیں کی شمع ایسے جلتی رہتی ہے مرے دل میں
چراغِ عشق جیسے جلائے تھے کبھی اُس نے