شوق خواہشاتی ہے
ضبط معجزاتی ہے
رابطہ نہیں ٹُوٹا
دل مواصلاتی ہے
صبح دم تری خوشبو
بادِ صبح لاتی ہے
دل سے تُو کبھی اُترے
غیر ممکناتی ہے
تُو شمار سے باہر
جگ معاملاتی ہے
دیکھ بے بسی میری
مجھ پہ مسکراتی ہے
یاد، شام، جھیل اور تُو
آنکھ ڈُبڈباتی ہے
خاک، باد، آب، آتش
پر! تصوراتی ہے
آسمان تک دیوار
مصلحت اُٹھاتی ہے
آرزوئے جاں عاشی
کس قدر ستاتی ہے