شوق کے دربار میں مقید ہوں
محبت کے حصار میں مقید ہوں
میرے تخیل کو باہر نہیں آنے دیتا
کسی خیال کے سحار میں مقید ہوں
خودی اور بے خودی میں کھو گیا ہوں
حسن و عشق کے خمار میں مقید ہوں
وفا کے نام پہ مرنے کا حوصلہ ہے مگر
ابھی تو زندگی کے پیار میں مقید ہوں
سکون میں بھی سفر میں رہتا ہوں
زندگی کی طرح فرار میں مقید ہوں
میرا یقین میرے حوصلے بڑھاتا ہے
اک اجنبی کے اعتبار میں مقید ہوں
میرا وجود جل کے خاک ہو گیا عظمٰی
آتش شوق کے انگار میں مقید ہوں