ضیائے ماہ و انجم کیا، جمالِ یار کے آگے
Poet: Ishtiaq Ahmed By: Ishtiaq Ahmed, Gilgitضیائے ماہ و انجم کیا، جمالِ یار کے آگے
نہیں ہے پیار کوئی بھی ہمارے پیار کے آگے
فقیری جانِ جاناں کی عبادت ہے، جبھی اُس کے
سوالی بن کے بیٹھا ہوں در و دیوار کے آگے
جو پلکوں میں بِٹھاتا ہے سُلاتا ہے مجھے ہر پل
میں نظروں کو بِچھا لیتا ہوں اُس دلدار کے آگے
نہیں نعمُ البدل کوئی تری مخمور آنکھوں کا
چئہ معنی دید حوروں کا ترے دیدار کے آگے
سُنا ہے حُسنِ یوسف کا کوئی ثانی نہیں لیکن
ٹھہر سکتا نہیں کوئی بھی حُسنِ یار کے آگے
وہ جب بھی سامنے آئے تو یہ احساس ہوتا ہے
کہ گویا میں کھڑا ہوں اِک حسیں گلزار کے آگے
جو دھمکاتا ہے دیواروں میں چُنوا دوں گا میں تجھ کو
میں سینہ تان کے جاتا ہوں اُس سردار کے آگے
پہن کر جلوہ گر ہونے سے ہوتا ہے جہاں روشن
نہیں قیمت کسی ہیرے کی اُس کے ہار کے آگے
وہ کہتا ہے نظارہ چاندنی کا ہے بڑا دلکش
میں کہتا ہوں نہیں کچھ بھی ترے رخسار کے آگے
دکھا کر بے رُخی برسوں تلک اک سنگدل نے پھر
جُھکائی ہے جبیں آخر مرے اشعار کے آگے
یوں تنہا ہجر کی راتوں میں آنسو مت بہانا یاد
گل و گلزار بھی تو ہیں رہِ پُر خار کے آگے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






