راستوں کی چاہ ہے نہ منزل کی طلب ہے
ہو جس میں محبت اس دل کی طلب ہے
ڈوب رہا ہوں دنیا کے سمندر میں میں
میں ایک کشتی ہوں ساحل کی طلب ہے
ہوں خاک نشیں اور خاک ہی بنوگا میں
میں ایک دیوانہ ہوں جنگل کی طلب ہے
جسکے ہر سنگ کا میں ہی تھا نشانہ
پھر بھی دل کو اسی سنگدل کی طلب ہے