عجیب صورتِ حالات ہو گئی یارو
پھر آ ج اُن سے ملاقات ہو گئی یارو
نظر کے سامنے وہ بن سنور کے بیٹھے ہیں
زہے نصیب کرامات ہو گئی یارو
یہ فیض دیکھئے اُن مہربان آ نکھوں کا
نظر نظر میں مدارات ہو گئی یارو
شکستہ دل تھا بہت ہی اداس تھا بادل
ذرا سی بات پہ برسات ہو گئی یارو
جو اُس سے ملنے کی خواہش کبھی ستاتی تھی
وہ نذرِ گردشِ حالات ہو گئی یارو
وہ چاند آ ج دریچے پہ کیوں نہیں آ یا
ضرور پھر سے کوئی بات ہو گئی یارو
پھر اُس کی یاد میں محفل سجائے بیٹھے ہو
اب اٹھ چکو کہ بہت رات ہو گئی یارو