عشق رکھتا تھا جمال رکھتا تھا
میں بھی دل کی بازی کا کمال رکھتا تھا
سمندر کی ریت پہ چلنا میری عادت تھی
گری ساحل پہ سپیاں سنبھال رکھتا تھا
وقت ظالم نے مار ماری ہے
گلوں سا میں چہرے پہ جمال رکھتا تھا
بن مکینوں کے کیسا ویراں ہوا
گھر جو آپ اپنی مثال رکھتا تھا
رتبے ملتے نہیں ریاضتوں سے کاشی
ورنہ ابلیس کتنے اعمال رکھتا تھا