عشق عالم کی عدالت میں مانگتی ہیں انصاف آنکھیں
اپنے اشکوں میں دُھل کر کتنی ہوئی ہیں صاف آنکھیں
ہونٹوں پر تلخیاں کبھی بھٹک کر رہ جاتی ہیں
اَٹکے ان اظہاروں کردیتی ہیں ہر بات آنکھیں
دل کے دروغ رشتے من ہی محسوس کرتا ہے لیکن
شرم میں جھکتی رہی کیوں یہ شرمسار آنکھیں
ابتدا ہی سے آدمی نے بس کہانیوں کو کائنات سمجھا
مطالعہ زمانہ اب بن گئی ہیں وہ کتاب آنکھیں
کبھی جھکی جاودانی میں تو کبھی اٹھتی ہیں التجا لیکر
چھپی پلکوں سے ساگر نکلا ایسے رونے لگی ہر بار آنکھیں
آواز تو انتم نہیں وہ اشاروں کے وعدے نبھاتی ہیں
کوئی آئے گا یہ امید لیکر جگتی ہیں پوری رات آنکھیں
دلفریب نظارے منزل کو مڑکر کہاں دیکھتے ہیں
بٹھکے مسافر کی انگلی پکڑ کر پہنچادیتی ہیں پار آنکھیں