عشق نے اُجاڑ کر اپنی خصوصیت ظاہر کردی
کوئی آوارہ شوق تھا جس نے حکومت ظاہر کردی
ہر سوچ کے تعین میں بھی آرام تھا کتنا مگر
آزادیوں نے تردید اعتراض مزاحمت ظاہر کردی
اس نے اپنی بے نیازی کا سجدہ مانگا نہ تھا
میں نے سر جھکاکے تو محصومیت ظاہر کردی
وقت لادے زوال تو تلافی بھی نہیں ہوتی
کسی کے عروُج نے کہاں وہ غنیمت ظاہر کردی
حقارت اتنی بھی نہ تھی کہ پھر سر نہ اٹھے
گرفتار محبت لوگوں نے وہاں محکومیت ظاہر کردی
مفید یہ ہوگا کہ اب خودی سے ہی پوُچھ لیں
کیوں ہر خوشامد پر دل کی حقیقت ظاہر کردی