عشق پر ہجر کا کیسا گماں نہیں کوئی
یہ جو تیری آنکھوں میں رازداں نہیں کوئی
میرے دل کی خاطر تو یہ فسانۂ ہستی
زخم بے رفو سا ہے درد جاں نہیں کوئی
جب سے مجھ کو حاصل ہے تیرے قرب کی دولت
دل بھی بحر الفت میں اب گماں نہیں کوئی
شور حشر برپا ہے یا کہ شور تنہائی
ہیں بجھی بجھی آنکھیں داستاں نہیں کوئی
مجھ کو مل ہی جائے گی اک نہ ایک دن منزل
بس اسی توقع پر دل آستاں نہیں کوئی
کون ہے جو رکھتا ہے دوست اس قدر مجھ کو
اجنبی سی دنیا میں آشیاں نہیں کوئی
اے وشمہ نہ چھوڑے گا وہ مجھے دعا دینا
"دھوپ ہے قیامت کی، سائباں نہیں کوئی"