عشق کی بے رخی نہیں ہوتی
اُس سے اب دل لگی نہیں ہوتی
سانس ٹوٹے مگر تھمی نہ رہے
پھر بھی یہ زندگی نہیں ہوتی
تیری یادوں کے آسماں پہ ابھی
چاند تاروں کمی نہیں ہوتی
دل کی حدت سے آؤ پگھلا لیں
برف ہجرت کی جمی نہیں ہوتی
میری آنکھوں میں تازگی نہ رہی
ہونٹوں پہ شبنمی نہیں ہوتی
چاند تارے سجائیں گر محفل
شب کی یہ خامشی نہیں ہوتی
کیا کروں گی میں ان ستاروں کا
چاند میں چاندنی نہیں ہوتی
تیری آنکھوں سے آنکھ مل جائے
سچ تو یہ بے بسی نہیں ہوتی
وشمہ میں تو یہ چاہتی ہوں سدا
بھُول جاؤ سُنی نہیں ہوتی