ستارہ میری قسمت کا اگر چہ ٹمٹماتا ہے
تو پھر وہ دور سے ہی کیوں مجھے جلوہ دکھاتا ہے
نئے اس شہر میں تو نے بھی اپناپن بدل ڈالا
ہمیں تُو غیر کہتا غیر کو اپنا بتاتا ہے
سنا ہے کل تلک جو شخص لوگوں کو ہنساتا تھا
کسی کی یاد میں اکثر وہ اب آنسو بہاتا ہے
جہاں ملنے کا کہتا ہے کبھی ملتا نہیں مجھ کو
ہمیشہ ہی مجھے وہ کیوں غلط رستہ بتاتا ہے
محبت ہو گئی جن کو وہ یہ بھی جانتے ہیں کے
ہوا اچھی ہو موسم کی تو دل بھی گنگناتا ہے
سرِ محفل تو ہم کو بھی سمجھ آتی تھی مجبوری
اکیلے بھی اگر ہم ہوں تو وہ نظریں چراتا ہے
سراسر جھوٹ ہے یہ کے اسے ہم نے ہی چھوڑا تھا
یہاں ہر شخص ہی ہم پر یہ کیوں تہمت لگاتا ہے