عقل پرواز کرتی نہیں اب
شامِ خزاں ڈھلتی نہیں اب
سوچا تھا انہیں بلالائیں گےپر
احباب کی آنکھ تو لگتی نہیں اب
یہ کہا رقیب کا مانے کیسے
شمع پروانے پہ جلتی نہیں اب
اپنا رونا نہیں پر یہ تماشا کیا ہے
پیاس سمندر کی بجھتی نہیں اب
جتنا چاہے تو کر عشق حسین
دال تیری تو گلتی نہیں اب