یوں تو ہر اک نظر کو بھاتے تھے ہم مگر اب ہو رہے ہیں ہم بھی، تھوڑے عمر رسیدہ تڑپ رہے تھے برسوں سے، ملنے کو ہم اُسے ملے تو پہلی نظر میں ہو گئے گرویدہ اعتبارِ دوست اگر ہم کو ہوتا، تو اُترتا دل کا بوجھ اب ہم کس کو سُناتے پھریں گے اپنا یہ قصیدہ