غموں کے اندھیروں میں کیا مسکرانا
اماوس کا بکھرا ہوا خواب چھانا
تمنا وفا کی فنا تک تو آئی
چلو کچھ تو جذبے لگے ہیں ٹھکانا
سبھی کو محبت میں ہوتے ہیں صدمے
چلو دھوم سے جشنِ ماتم منانا
تجھے ایک پل میں یہ کیسے بتا دوں
امیدوں کو بنتے لگے ہیں زمانہ
مرے نام سے ہے زمانے کو نفرت
پیالے میں ہستی کے زہر اب پلانا
تجھے زیست کی ہر خوشی ہو میسر
مرا غم نہ کر شاد و شاداب رہنا
جنہیں گھن سی آتی تھی اہل جنوں سے
وہ آداب الفت لگے ہیں سکھانا
تعارف مرا کیا ہے پوچھو نہ وشمہ
وفا نام ہے اور نایاب جانا