غمِ فراق کا ڈر تلملائے ہیں کیا کیا
Poet: وشمہ خان وشمہ By: وشمہ خان وشمہ, ملایشیاغمِ فراق کا ڈر تلملائے ہیں کیا کیا
بدن میں آگ کسی کی لگائے ہیں کیا کیا
چھپی وفا کو چلو ہم بیان کر ڈالیں
نہیں ہے درد مجھے کچھ چھپائے ہیں کیا کیا
کہ وقت دور بہت کل نکل گیا ہوگا
یوں ہی ستاؤں اگر ہاتھ آئے ہیں کیا کیا
جو میری آنکھوں میں جھانکا ہے غور سے تم نے
بتا تو میری وفا ؤں کو بھائے ہیں کیا کیا
ذرا وہ چاند تو دیکھو کہ گھٹ گیا کتنا
جو حسن آج ہے اک روز ڈھائے ہیں کیا کیا
نظام نو میں وہی ٹھوکریں ہیں اس کا نصیب
زمانہ چال قیامت کی لائے ہیں کیا کیا
مزے سے کیا کوئی آگاہ ہو محبت کو
نہ جب تلک کہ ہو دل آشنائے ہیں کیا کیا
چھپائے دل میں مگر میں نے غم کے دریا ہیں
عجب نہیں کہ یہ نکلے صدا کہ ہائے ہیں کیا کیا
چمن نہیں ہیں مری زندگی میں صحرا ہیں
کہ بڑھ رہے ہیں جدائی کے سائے ہیں کیا کیا
گھمنڈ اس کا تو وشمہ اگرچہ ٹوٹ گیا
کسی کے ساتھ ترا نام آئے ہیں کیا کیا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






