یہ غم کیسا آیا میری آنکھوں میں جو نم لایا
چاہت میں یہ پُر خطر موڑ پر کیوں آیا
ملنے سے پہلے ہی اس قدر کیوں دور ہو گےَ
ہماری ملاقات میں اس قدر فاصلہ کیوں حائل آیا
ہیں جسم الگ ہمارے پر روح تو الگ نہیں
فاصلہ ہے اگرچہ درمیان پر دل تو دور نہیں
میری پلکیں نم ہیں لیکن دل تو نااُمید نہیں
دیدار ہونے سے پہلے جُدائی کا موسم پھر کیوں اُمنڈ آیا
تیری صورت روشنی کی طرح میری آنکھوں میں بسی ہے
میرے لاغر جسم میں تجھ سے ملنے کی خواہش ہی زندگی ہے
راستے پر نظریں لگائے کھڑا ہوں کبھی تو پیار کی گھٹا چھائے گی
ملنے سے پہلے ہی بچھڑنے کا موسم پھر کیوں میرے دلدار آیا
لگتا ہے آرام کی نیند اب تو میری قسمت میں ہی نہیں
چل دوں گا دنیا سے تیرے ملنے سے پہلے ہی
تیری جُدائی کا زہر پینے کی اب میرے جسم میں سکت ہی نہیں
ذوالفقار زندگی کی شمع بجھنے پر اُن کا خیال پھر کیوں آیا