غیروں سے کبھی, کبھی اپنوں سے شناسائی ہو گی
اے عید! ان کو بھی میری یاد آئی ہو گی
وہ جو ساتھ میرے رہا کرتے تھے
قدم سے قدم ملا کر چلا کرتے تھے
مجھ سے مل کر وہ اور کھلا کرتے تھے
آج ان کی محفل میں پھر شمع آرائی ہو گی
اے عید! ان کو بھی میری یاد آئی ہو گی
ہم سے بچھڑ کہ وہ نجانے کیسے ہوں گے
اپنی محفل کے ہوں گےچاند یا پھرسورج جیسے ہوں گے
وہ شمع عام ہو گیوہ پروانے ایسے ویسے ہوں گے
ہمارے بعد کسی نے وہ شمع جلائی ہوگی
اے عید! ان کو بھی میری یاد آئی ہو گی
ان کی یادوں کی ایسی چادر چھائ ہے دانی
ہر چہرے میں ان کی صورت نظر آئی ہے دانی
اک اور عید ان کے بغیر آئی ہے دانی
سمندر جتنی جن کے پیار کی گہرائی ہو گی
اے عید! ان کو بھی میری یاد آئی ہو گی