غیر کے نام کی ہاتھوں پہ سجا کر مہندی
Poet: مرید باقر انصاری By: مرید باقر انصاری, Karachiغیر کے نام کی ہاتھوں پہ سجا کر مہندی
 وہ مجھے یوں بھی جلاتا ہے دکھا کر مہندی
 
 ایسی مہندی نہ میسر ہو کسی کو مولیٰ 
 جو کہ رنگ لاۓ کسی کو بھی رُلا کر مہندی
 
 اس طرح بھی کبھی آتی ہے مجھے سوچ کہ میں
 اس کے ہاتھوں سے مٹا دوں کبھی جا کر مہندی
 
 یہ بھی تڑپاتی ہے دن رات مجھے سوچ اکثر
 دے گیا کیوں وہ مجھے ہاتھ ملا کر مہندی
 
 دھونے والے سے کبھی کوئ تو یہ بھی پوچھے
 اس کو کیا ملتا ہے پیروں میں بہا کر مہندی
 
 کاش اک بار تو کہہ دیتا وہ رخصت ہوتے
 مجھ کو لے جاؤ مرے یار مٹا کر مہندی
 
 تھی پسند اس کو اگر غیر کی مہندی باقرؔ
 پھر مرا خون ہی لے جاتا بنا کر مہندی
More Love / Romantic Poetry







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 