جان محبوب کے قدموں پہ فدا ہو جائے
ہم سے یہ فرضِ محبت بھی ادا ہو جائے
تیرے بیمارِ محبت کو شفا ہو جائے
یعنی وہ درد عطا کر کہ دوا ہو جائے
اِس قدر بے خودئ شوق سوا ہو جائے
میرا ہر ایک نَفَس دستِ دُعا ہو جائے
اِک تری نظرِ عنایت جو عطا ہو جائے
روز و شب مست رہوں ایسا نشہ ہو جائے
ایک ہی غم ہے مری جانِ حزیں کو لاحق
میرا محبوب نہیں مجھ سے خفا ہو جائے
صحنِ دل میں جو کبھی خوشبوئے جاناں مہکے
مست و مخمور مرے دل کی فضا ہو جائے
عمر بیتی ہے یہی عرضِ تمنا کرتے
فیصلؔ خستہ کو توفیقِ وفا ہو جائے