فصیل شب کی سیا ہی میں روشنی دیکھوں
میں بجھتی شام کی آنکھوں میں زندگی دیکھوں
میں نے گلہائے محبت میں سدا رہنا ہے
کیسے ممکن ہے تری آنکھ میں نمی دیکھوں
پڑا جو وقت تو سب نے ہی ساتھ چھوڑ دیا
جہانِ رنج میں پھیلی یہ بے بسی دیکھوں
گرا دیا ہے کسی گہری کھائی میں جس نے
اسی کی آنکھ میں الفت کی روشنی دیکھوں
اب اعتبار کروں بھی تو کس طرح تم پر
تمارے پیار کی باتوں میں جب کمی دیکھوں
منافقت سے حقیقت تمھاری کھل تو گئی
تمارے چہرے پہ پھر بھی میں عاشقی دیکھوں
چلو یہ اچھا ہوا آنے والے طوفاں سے
میں دے دوں جان یہ وشمہ کہ زندگی دیکھوں