الفت میں تیری ایسے فنا ہوگیا ہوں میں
خود اپنے آپ سے بھی جدا ہوگیا ہوں میں
دنیا پکارتی ہے مجھے تیرے نام سے
میں خود یہ سوچتا ہوں کہ کیا ہوگیا ہوں میں
مت پوچھ حال کیا ہے ترے ہجر میں میرا
ہر ایک لمحہ وقف دعا ہوگیا ہوں میں
کیوں میں کسی سے درد کا درماں طلب کروں
اپنے جنوں کی آپ دوا ہو گیا ہوں میں
وہ مسکرا کے دیکھنا محفل میں غیر کی
ہر اک ادا پہ تیری فدا ہوگیا ہوں میں
یاسر میرے وجود میں یوں بس گیا ہے وہ
لگتا ہے جیسے اس کی صدا ہوگیا ہوں میں