روح پر اندھے خلا کے سائے برسائے گئے
ہم ستاروں تک نظر کے ہاتھ پھیلائے گئے
زیست شرمندہ ہے اے جاں تیری یادوں سے مگر
فیصلے کچھ پاؤں کی ٹھوکر سے منوائے گئے
تو نشاط روح کی صورت نظر سے دور ہے
آج دل سمجھا کہ ہم بےکار تڑپائے گئے
جن میں تیرے نرم ہونٹوں کی نمی کی باس تھی
ان نگاہوں میں جہنم زار دہکائے گئے
اک تجھ ہی سے یہ گلہ ہوتا تو کوئی بات تھی
ہم یہاں ہر راہ پہ ایسے ہی ٹھکرائے گئے
ہم نے بھی جمشید رکھا اس طرح اپنا بھرم
اپنے دل کو عمر بھر باتوں سے بہلائے گئے