قاتلانہ وہ قاتل ادا رکھتے ہیں
مارنے کی ہمیں کچھ وجہ رکھتے ہیں
اُس کے ابرو بھی تو مثل ہیں تیر کے
جال تو وہ نگاہ میں ہی بچھا رکھتے ہیں
لب کشادہ ہیں تو نور ہے نین میں
رُخ پہ وہ چاند سا ضیا رکھتے ہیں
نبض چلتی ہے اُن کے اشارے پہ ہی
وہ مٹھی میں ہماری بقا رکھتے ہیں