تھی رات وصل کی لیکن ہوا وصال نہ تھا
قریب رہ کے بھی اس کو مرا خیال نہ تھا
تھی زندگی تو ہمیشہ سے ہی بہت تنہا
ہوں جتنا آج میں تنہا کبھی یہ حال نہ تھا
گزر گئے تھے سبھی آ کے، غم ذدہ کر کے
یہ سال بھی تو مسرت کا کوئی سال نہ تھا
یہ فاصلے کبھی پل بھر میں مٹ بھی سکتے تھے
قریب آنا ترے واسطے محال نہ تھا
سبب جدائی کا وقت جدائی نہ جانا
میں چپ تھا تیرے لبوں پر بھی تو سوال نہ تھا
خوشی تو اس کے بھی ہوتے ملی نہ تھی زاہد
وہ غم گسار تھا لیکن دکھوں میں ڈھال نہ تھا