گلہ ہے جو مجھے اس کو ہی اب بتانا ہے
اسے خبر ہے تعلق بھی یہ پرانا ہے
خبر یوں حادثے کی کس اڑائی میری ہے
مجھے پتا ہے کہ یہ ملنے کا بہانہ ہے
ہمیں خبر ہے خطا کون سے ہوئی ہم سے
زمانے بھر کا فقط عشق ہی نشانہ ہے
یہ کون ضدی ہے جس نے مجھے پتھر مارا
یہ آج کس کو مجھے پھر سے آزمانا ہے
تمہارا ساتھ بہت کچھ ہے یار میرے لیئے
قسم خدا کی یہ جینے کا اک بہانہ ہے
کہاں ملیں گے تمہارے مزاج مجھ سے پھر
تمہارے گھر سے مرا گھر بھی کچھ پرانا ہے
ہوا ہے جو بھی مگر بات یہ بھی ہے ارشیؔ
کہا تھا تم نے تعلق یہ اب نبھانا ہے