قفس میں مقید پرنده هوں
مجھے اڑنا هے دور افق کنارے
ابھرتی معدوم هوتی خواهشوں کے
سانس لیتے ساتوں آسماں په
پر پھیلاۓ غم و اندوه کے بادلوں کو
چیر کر هر کالی گھپ پرچھائی کو
مجھے اڑنا هے دور افق کنارے
کون جانے ان وسعتوں میں
کیا کیا راز دھرے هیں تسخیر کو
کون جانے کس سیپ میں هے موتی
شنکھ بجا کر معلوم کرنا هے
هر زنجیر کو توڑ کر وقت کی حالات کی
هر آندھی کا سینه شق کر کے
مجھے اڑنا هے دور افق کنارے