تمام عمر ہم نے دل کو خیمہ زن کیا
ادھر اکاڑا تو ادھر گاڑھ دیا
ظالم تھا بہت جزوئے کلب میرا
ادھر سنوارا تو ادھر بگاڑ دیا
قمر پیوستہ ہوئی تونظر زمیں میں گڑھی
ہائے عمر عزیز لٹ گئے موت نے آ خبردار کیا
بجھتے ہوے چراغوں کو جو دیکھا خون جلنے لگا
بلآخر دن کے اجالے کو شام کے آنچل نے گرفتار کیا
اڑتی ہوئی ریت کو جو دیکھا دریا کے شکم مے
میری عقل وصل نے دل مضتر کو بہت ہوشیار کیا
کل جس کے دامن مے تھے راستے حیات کے رضا
آج اسی پانی نے سانس لینا بھی دشوار کیا